پاکستانتازہ ترین

وطن ہے تو سب کچھ ہے .. شہناز لغاری پہلی باحجاب پائلٹ کا خصوصی انٹرویو

شہناز لغاری وہ پہلی پاکستانی حجابی خاتون کیپٹن پائلٹ ہیں جنہوں نے نقاب پہن کر ہوائی جہاز اڑایا۔ اس کارنامے پر ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا گیا۔ لیڈی پائلٹ شہناز لغاری کا تعلق ڈیرہ غازی خان میں چوٹی بالا کے ایک معروف قبیلہ لغاری خاندان سے ہے۔ ان کے آباؤ اجداد کئی سو سال پہلے افغانستان کی سیاسی قیادت میں رہے۔ بعد ازاں وہ پاکستان میں ہجرت کر کے آ گئے۔ شہناز لغاری کا تعلق ایک پڑھے لکھے خاندان سے ہے جن میں بیشتر پیشہ کے اعتبار سے وکالت، آرمی، ججز اور سیاست سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں جبکہ ان کے والد محترم انجینر تھے۔ شہناز لغاری نے اپنی تعلیم ملتان سے حاصل کی جہاں سے (بی ایس سی) کی ڈگری حاصل کی بعد ازاں فلائنگ کے لئے انہوں نے (پی پی ایل) اور (سی پی ایل) کا کورس مکمل کیا۔شہناز لغاری نے کہا کہ وطن ہے تو سب کچھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد وطن میں پیدا کیا۔ مجھے بچپن سے ہی آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا شوخ تھا جو کہ میری والدہ محترمہ کی بدولت پورا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں جب میں نے پائلٹ کا کورس کیا تو عورتوں کے لیئے نوکری ممنوع تھی اور جب میں پاکستان پائلٹ ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن بنی تو میں نے عورتوں کے لئے کوشش کی تو انہیں نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی گئی۔ لیکن شہناز لغاری نے اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھا اور اپنے مشن کو جاری رکھا بعد ازاں ان کی کوشش کامیاب ہوئی اور حکومت نے عورتوں کے جہاز فلائی کرنے پر پابندی ختم کر دی۔ 90 کی دہائی تک پی آئی اے کے لیئے زیادہ تر پائلٹ غیر ملکی ہوتے تھے جس کی وجہ سے پاکستان کے میل پائلٹ بھی نوکری کرنے سے قاصر تھے۔ اس وقت صدر اسحاق خان کے دور میں اس معاملے کو اسمبلیوں تک اٹھایا جو بعد میں کامیاب ہوا۔ لائسنس کی تجدید چھ ماہ ہوتی جبکہ انٹرنیشنل قانون کے مطابق ایک سال بعد ہونا چاہئے۔

پائلٹ کی ٹریننگ کے لئے فیول کے چارجز ختم کروائے۔ شہناز لغاری کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پائلٹ ذہین ہیں وہ بمپ ایئر (ہوا کے ٹکرائو) میں بھی فلائنگ کے سکتے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایئر لائن کے لئے نئے جہازوں کی طرف توجہ دینی چائیے کیونکہ یہ اکانومی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ شہناز لغاری نے خواتین کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کی اور نادار خواتین کے لیئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے این جی اوز پر زور دیا جو سیمینار کرتی ہے، کہ خواتین کے لئے حقیقی معنوں میں کام بھی کرنا چاہئے۔ شہناز لغاری نے بچوں کی تعلیم کے لئے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے اور ایک مزید قائم کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم اگر بچوں کو تعلیم دیں گے تو وہ مستقبل میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں گے اور مختلف جرائم سے بھی محفوظ رہیں گے۔ بیرون ملک تربیت کی پیشکش ہوئی لیکن میں پاکستان کے مستقبل کے لئے کوشاں ہوں۔ وہ اپنی کمیونٹی میں ایک اچھی سماجی کارکن بھی ہیں، اور معاشرے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے تربیتی مراکز بھی چلا رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں انسانیت کے حقوق کے لیے کھڑی ہوئیں۔ وہ غریبوں کے لیے مفت تعلیمی مرکز اور سلائی سنٹر کھول کر قوم کی خدمت پر یقین رکھتی ہیں۔


پردے کے حوالے سے پائلٹ شہناز لغاری کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ انہوں نے پردہ کر کے عورت کے لئے گھر میں بیٹھنے کے خیال کو مسترد کیا اور خود ایک باہمت عورت بن کر ترقی کی راہ میں گامزن ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں بہت سے لوگوں نے ان کے اس فیصلے کی حوصلہ شکنی کی۔ دوسرے لوگوں کی رائے کی بجائے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم بارے میں ہمیں سوچنا چاہئے کہ پردہ صرف اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یہ خواتین کو ترقی کی راہ سے منع نہیں کرتا ہے۔ میں نے خود کو متحرک رکھا اور اپنے مقصد کی طرف قدم بڑھایا اور نقاب کو فخر محسوس کیا۔ میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں پردے کی تربیت ہے اور اسے لباس کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ جب میں نے خود قرآن مجید میں نقاب کا مطالعہ کیا تو مجھے کبھی بھی نقاب بوجھ محسوس نہیں ہوا بلکہ میں اسے اپنے لئے فخر سمجھتی ہوں۔ شہناز لغاری بتاتی ہے کہ 2001ء میں ایک ایکسپو میں شرکت کی جہاں اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف مہمان خصوصی تھے جس میں وہ ہر کسی سے مصافحہ کر رہے تھے۔ جب صدر مشرف میری طرف آئے تو انہوں نے ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے کر کے مجھ سے سلام کیا تھا۔ میرے چہرے پر فخر اور آنکھوں میں نمی تھی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جو علم اور کام کرنے کی صلاحیت حاصل ہے وہ اس علم کو دوسروں تک ضرور پہنچانے کی کوشش کریں گی۔

شہناز لغاری خواتین کے لئے معاشرے میں ایک مثالی شخصیت ہے۔ ایک انٹرویو میں کیپٹن پائلٹ شہناز لغاری کا کہنا تھا کہ مشکلات تو ہر کام میں ہوتی ہیں، لیکن جب انسان اللہ پر بھروسا کر کے کام کرتا ہے تو اس کی مشکلات آسان ہو جاتی ہبں۔ فلائنگ کا مجھے شروع سے شوق تھا لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کو مردوں کی نسبت کم حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے پائلٹ بننے کے لیے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کی شادی پر پھولوں کی ایئر ڈراپنگ کروائی گئی تھی جس سے مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں بھی جہاز فلائی کروں، ایئر اکیڈمی جوائن کرنے کے لیے سب سے پہلے مجھے فزیکل فٹنس ٹیسٹ پاس کرنا پڑھا تھا۔ جس کے بعد میں نے باقاعدہ پائلٹ کے لیئے کورس ورک مکمل کیا۔ ایک عورت کی حیثیت سے میرے لیے فضا میں جہاز کا کنٹرول کرنا تھوڑا مشکل تھا لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ شہناز لغاری نے نو گھنٹے کی فلائی ٹریننگ کے بعد پہلی بار سولو فلائنگ کی۔ جب میں نے پہلی سولو فلائٹ کی تو میرے لئے فرسٹ ایڈ میڈیکل سامان کا انتظام کیا گیا تھا اور میرے انسٹرکٹر میری پہلی لینڈنگ سے کچھ خوف زدہ تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں نے اچھی لینڈنگ کی۔


جب انسان اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے تو سب کچھ صحیح ہو جاتا ہے۔ پائلٹ شہناز لغاری نے کہا کہ جہاز فلائنگ کی ٹریننگ اور لائسنس تو ایک عورت پائلٹ کو مل جاتا ہے مگر نوکری کے لیئے حق حاصل نہیں ہوتا تھا۔ فلائنگ کے لئے کمپنی ’’فلائنگ عورتوں کے لئے نہیں‘‘ کا اشتہار دیتی تھی۔ جب میں نے لائسنس حاصل کیا تو مجھے احساس ہوا کہ ایک عورت کتنی مشکلات کے باوجود پائلٹ بنتی ہے لیکن اسے فیلڈ کے لئے نوکری کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک کانفرنس میں ایسوی ایشن کے صدر سے عورتوں کی نوکری کے بارے میں مطالبہ کیا جس پر فلائنگ کے شعبے میں عورتوں کی حوصلہ افزائی شروع ہوئی۔

نقاب کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ نقاب صرف سر پر اسکارف نہیں ہے، جس سے آپ کا سر ڈھانپا اور باقی جسم نظر آتا ہو؟ جی نہیں۔ حجاب ایک مکمل لباس ہے جو جسم کی شکل کو ظاہر کئے بغیر پورے جسم کو ڈھانپتا ہے۔ یہ ایک مکمل لباس ہونا چاہئے جس سے عورت کا جسم ظاہر نہ ہو۔ بنیادی طور پر نقاب ایک پردہ ہے جو چہرے کو ڈھانپتا ہے، عام طور پر یہ ایک ہیڈ سکارف کے ساتھ پہنا جاتا ہے یہ اکثر مسلم خواتین حجاب کے طور پر پہنتی ہیں۔ نقاب پہننے والی مسلم خواتین کے بارے میں اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مظلوم ہیں، انہیں دبایا گیا ہے یا ان کا اپنا کوئی انتخاب نہیں ہے۔ وہ معاشرے میں چار دیواری سے باہر کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔ شہناز لغاری کا بطور پائلٹ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کا غلبہ ہے اور خواتین کو متعدد سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکا جاتا ہے۔ پہلی کمرشل پائلٹ شہناز لغاری کا کہنا تھا کہ فلائنگ میں مناسب نوکری نہ ہونے کے وجہ سے انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز ایک آزاد امیدوار کے طور پر کیا اور پہلی بار لاہور سے عام انتخابات 2013ء میں این اے 122 سے حصہ بھی لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکیں اور فلائنگ کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

Back to top button